حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ جنہیں عقیدت سے بابا صاحب کہاجاتاہے۔ آپ ملتان کے ایک گائوں کوٹھی وال میں پیدا ہوئےاعلٰی پائے کے بزرگ اور منفرد حیثیت کے مالک تھے،آپ ایک بہت بڑے صوفی بزرگ کے خلیفہ اور ایک بہت بڑے صوفی بزرگ کے مرشدِ کامل تھے۔آپ کوخلافت حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ سے ملی۔ آپؒ کے مرتبے اور عظمت کا اندازہ اس بات سے ہوجاتا ہے کہ آپ خواجہ معین الدین چشتیؒ جیسے ولیٔ کامل اور حضرت قطب الدین بختیار راوشیؒ جیسے عظیم مرشد جو خواجہ صاحب کے خلیفہ کے نائب اور جانشین تھے۔ بابا صاحب مادر زاد ولی تھے آپ کی والدہ ماجدقرسم بی بیؒ خود ایک ولیۂ کاملہ اور مُلتان کے ایک ولّی کَامِل سید وہاج الدین خجندیؒکی صاحِب زَادی تھیں اور آپ کی نگرانی میں بابا صاحب کی تعلیم وتربیت ہوئی۔ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ حضرت عمر فاروق ؓ کی اولاد میںسے تھے، آپ کا سلسلہ تینتیس ویں واسطے میںحضرت فاروق اعظم ؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے اجداد میں سے پہلی ہجرت حضرت واعظ اصغر فاروقیؓ نے معہ متعلقین کے مدینۂ منورہ سے روم کی طرف کی اوراٹلی میں سکونت اختیار کی۔دوسری ہجرت حضرت واعظ فاروقیؒ کی اولاد سے شیخ احمد فاروقیؒ نے بھاری جمعیت کے ساتھ کی اور حملہ کر کے افغانستان فتح کرلیا اور فرخ شاہ کا لقب اختیار کیا۔جب افغانستان پر تاتاریوں نے حملہ کیا تو فَرخ شاہ کابلی کی اولاد سے شیخ شعیب نے ہجرت کی اور معہ متعلقین کے ملتان آکر قصور کے قریب کھتوال میں آباد ہوئے۔بابا صاحب انہی شیخ شعیب کے حقیقی پوتے اور شیخ جمال الدین سلیمان کے صاحب زادے تھے۔ جب آپ نے ابتدائی تعلیم وتربیت مکمل کرلی تو آپ مزید تعلیم کے لیے ملتان تشریف لے گئے۔یہاںآپ مولانا منہاج الدین برنا ترمذی کے مدرسے میں داخل ہوگئے جو مسجد میں واقع تھا۔ یہیں آپ کی ملاقات اَپنے مُرشدِ کامل حَضرت قُطب الدین بَختیار کاکی ؒ سے ہوئی۔اس ملاقات کی تفصیل سیر الاقطاب کے مصنف الہدایہ ابن شیخ عبدالرحیم نے ان الفاظ میں لکھی ہے، ’’ حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ نے ازراہِ شفقت اُن سے پوچھا کہ لڑکے کیا پڑھتے ہو؟‘‘ جواب دیا’’فقہ کی ایک کتاب جس کا نام’’نافع‘‘ ہے، پڑھتا ہوں۔‘‘حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ نے فرمایا،’’ انشاء اللہ تمہیں نَافع سے نَفع ہوگا ۔‘‘ ان الفاظ کااثر یہ ہوا کہ شیخ فرید الدین مسعود ؒ نے اپنے آپ کو قطب صاحب کے حوالے کردیا۔حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے حصولِ علم و تَربیتِ نفس اور تَکالیف ِفی سَبیل اللہ برداشت کرنے کے لیے طویل سفر اختیار کیا۔سفر کا یہ دورملتان میں اپنے مرشد کامل سے ملنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور دہلی جا کر اُن سے دوبارہ ملنے تک جاری رہتا ہے۔آپ نے وسط ایشیا ٔمشرق قریب اور مشرقِ وسطیٰ کے علاقوں میں سفر کے علاوہ قندھار اور دہلی کا بھی سفر اختیارکیا۔ اجودھن آج سے سینکڑوں سال پہلے دریائے ستلج کے کنارے ایک گُمنام اور چُھوٹی سِی جگہ تھی۔ آج وُہی گُم نَام جگہ خَلقِ خدا کے لیے رُوحانی فیض و سُکون کا مرکز بنی ہوئی ہے۔اجودھن کا نام شہنشاہ اکبر نے تبدیل کرکے پاک پتن رکھاتھا۔اکبربادشاہ بابا صاحب کی روحانی عظمت سمجھتاتھا اور بابا صاحب کا دل سے عقیدت مند تھا۔ہندوستان کی اسلامی تاریخ اور روحانی تعمیر میں چشتیہ سلسلہ کے بزرگوں نے بے مثال کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ہندوستان میںاسلام پھیلانے اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات عام کرنے میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ‘ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ‘ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ اور حضرت نظام الدین اولیا ؒ کی مساعی کا بڑا دخل ہے۔ بابا صاحب نے اسلامی تعلیمات کے ذریعے بر صغیر کی مختلف قوموں کو بھائی چارے کاپیغام دیا۔آپ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے اور رسول اللہ ؐ کی سُنّتوں کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔شریعت کے سختی سے پابند تھے اور دوسروں کو بھی پابندیٔ شریعت کا حکم فرماتے تھے۔آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ،’’ اگر کوئی شَریعَت کا پابند نہ ہواور وہ ہوا میں اُڑتا ہو یا پانی پر چلتا ہو، وہ صُوفی نہیں شیطان ہے۔آپ کا معمو ل تھا کہ جماعت خانے میں آنے والے ہر درویش اور طالب سے خود ملتے تھے ۔اُس کا حال دریافت کرتے اور اُس کی مدد کرتے تھے۔جماعت خانہ آپ نے درویشوں کے قیام کے لیے تعمیر کرایاتھا۔جہاں رہ کر روحانی تعلیم وتربیت حاصل کرتے تھے۔ آپ نے اپنے دورکے حکمرانوں کو انصاف اور انسان دوستی کا سبق دیا ،انہیں اسلامی طرز حکمرانی کے آداب سکھائے اور انہیں توحید ومساوات سے روشناس کرایا۔ ایک غور طلب بات یہ ہے کہ جو اِنقلاب مُسلمان حکمران بر صغیر میں نہیں لاسکے وہ انقلاب اولیائے کرام اپنے عمل‘دعوت ِ فکر اور روحانی تعلیمات کے ذریعے لائے اور خاص طور پر بابا صاحب نے یہ فریضہ منفرد انداز میں ادا کیا اور تاریخ بدل کر رکھ دی۔ وہ فریضہ ہندوستان کی ہندو آبادی کو اسلام سے قریب لانے اور انہیں اپنا بنانے کاتھا۔جب مرشدؒ نے انہیںاسلام کی تبلیغ کے لیے مامور کیا وہ خاندانِِ غلامان کا دورتھا۔ایک طرف تو ہندو اکثریت تھی جو مسلمانوں سے میل ملاپ بڑھاتے ہوئے ڈرتی تھی اس لیے کہ اُن میں ایک محکوم قوم کی نفسیات تھی،دوسری طرف تاتاریوں کے حملوں نے مسلمانون کی عظمت اور قوت پارہ پارہ کردی تھی اور خوف تھا کہ ہندو اکثریت کہیں اَپنے مُٹھی بھر مسلمان حکمرانوں کے خلاف بدگمان ہو کر سازش شروع نہ کردے۔ اس نازک دورکا چیلنج حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے قبول کیا۔مسلمانوں کو حق پرستی کی قوت کااحساس دلایا،اُن کی خود اعتمادی بیدار کی اور مختلف قوموں میں یک جہتی کے لیے جدوجہد شروع کی،آپ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ہِندواسلام کے قریب آنا شروع ہوئے، ہزاروں،لاکھوں مشرف بہ اسلام ہوئے اور جو مسلمان نہ ہوئے انہوں نے اسلام سے متاثر ہو کر بھگتی تحریک میں اپنے آپ کو ضم کرلیا ۔یہی بھگتی تحریک والے سکھ کہلائے۔گرورار جن مل آپ کے اندازِ فکر سے بہت متاثر تھے۔گرنتھ صاحب میں اکثر اشلوک ایسے ہیں جنہیں بابا فریدؒ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ بابا صاحب نو مُسلموں سے عوامی بولی میں بات چیت کرتے تھے ۔شاید یہیں سے اردو زبان کی ابتدا ہوئی اورامیر خسروؒ نے اس میٹھی زبان میں رنگ و موسیقی کی آمیزش کی۔حضرت بابا صاحب اپنے عقیدت مندوں اور طالب علموں سے نہایت شفقت اور پیار سے بات کرتے تھے۔ آپ کبھی بحث مباحثوں میں نہ الجھتے ۔آپ کے مزاج میں بڑا سُکون، تَحمل اوردِھیما پَن تھا جو ہر شخص کا دل موہ لیتاتھا۔ آپ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی مروّت اور درگذرسے پیش آتے ۔ایک باربابا صاحب سخت بیمارہوگئے ۔ آپ نے اپنے مرید حضرت نظام الدین اولیا ؒ اور فرزند بدر الدین سلیمانؒ کو مشغول حق کے واسطے حکم دیا۔یہ لوگ حکم کے مطابق عبادت الہٰی میں مشغول ہوگئے،اس رات شیخ بدر الدین سلیمانؒ نے خواب میں دیکھا کہ بابا صاحب پر شہاب الدین جادوگر کے بیٹے نے جادوکیا ہے ،چناں چہ اس کا مداوا کیاگیا اورآپ بفضلِ خُدا صحت یاب ہوگئے۔ اجودھن کے حاکم کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بہت برہم ہوا اور اس نے شہا ب الدین جادوگر کے بیٹے کو پابہ زنجیر کرکے حضرت شیخ الاسلام کے حضور بھیج دیاکہ ''یہ شخص وَاجِب القتل ہے اگر حکم ہو تو اس کی گردن اڑادوں"'آپ نے جواب دیا کہ،’’ شافی حقیقی نے مجھے صحت بخش دی،میں اِس کے شکرانے میں اُس کی خطا معاف کرتا ہوں، آپ بھی درگذر کریں۔‘‘ بابا صاحب کو گنج شکرؒ کیوں کہتے ہیں اس سلسلے میںکئی روایات ہیں لیکن حاجی محمد قندھاری کی تاریخ میں لکھا ہے کہ جِن دنوں بابا صاحب دہلی میں قطب صاحب کی خدمت میں رہتے تھے ،ایک روز برسات میںکھڑاوں پہن کر پیرکی خدمت میں جارہے تھے کہ پھسل کر گر پڑے اور مٹی کے کچھ ذرّات آپ کے دہنِ مبارک میں چلے گئے اور حکمِ خُدا سے شکر میں تبدیل ہوگئے۔جب آپ حضرت قطبؒ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ’’ تھوڑی مٹی تمہارے منہ میں پہنچ کر شکر ہوگئی۔کیا عجب کہ قادر ِ مطلق نے تمہارا تمام جسم گنجِ شکر کیا ہے ، وہ تمہیں اپنے فضل سے شیریں رکھے گا۔‘‘اُس وقت سے آپ خلق میں گنجِ شکر ؒ مشہور ہوگئے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے فرمایا،’’پانچ محرم کو مرشد بابافرید الدین کے مرض کی شدت بڑھ گئی اور حضرت شیخ نے عشا ٔ کی نماز باجماعت اداکی اور بے ہوش ہوگئے،اس طرح تین بار نماز عشا ٔ ادا کی اور 5محرم الحرام679 ہجری بہ مطابق 1246 عیسوی کو سجدے کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے۔ اس وقت آپؒ کی عمر پچانوے سال تھی۔بعض روایت کے مطابق آپؒ کا وصال 664ہجری میں ہوا آپؒ کا عرس مبارک ہر سال 5تا 7 محرم الحرام تک پاک پتن شریف میں منایا جاتا ہے۔ (اقتباس از فکرفریدؒ) سلطان الہند سے ملاقات کاعظیم الشان واقعہ آپؒ کی چلّہ کشی کے دوران صوفیائے ہند کی تاریخ کا وہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا جو وقت کی پیشانی پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوکر رہ گیاہے۔ 612 ھ میں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی دہلی تشریف لائے ،والیٔ ہندوستان شمس الدین التمش سمیت پورا شہر زیارت و قدم بوسی کے لیے امڈ آیا،جب سب لوگ واپس چلے گئے تو حضرت سلطان الہندؒ نے حضرت قطب الدین بختیار کاکی سے دریافت کیا کہ،’’قطب! تم نے اپنے نئے مرید فرید الدین مسعودؒ سے متعلق اطلاع دی تھی ،کیا وہ حاضر ہواتھا؟اُنہوں نے عرض کی کہ ،’’وہ چلّہ کشی میں مصروف ہے۔‘‘ سلطان الہند نے فرمایا،’’ اگر وہ یہاں آنے سے قاصر ہے تو ہم اس حجرے تک جانے سے قاصر نہیں۔‘‘حضرت قطب نے بے اختیار عرض کی،’’ فرید بھی کیا خوش نصیب ہے کہ اولیائے ہند کا شہنشاہ خود ایک غلام کی خاطر تشریف لیے جارہاہے۔‘‘ آپ ؒ نے فرمایا،’’نہیں ،فرید اس کا مستحق ہے۔‘‘ برج میں چلّہ کشی میں مصروف بابا فرید نے اچانک محسوس کیا کہ ایک مسحور کن خوشبو حجرے میں پھیل گئی ہے ۔گھبرا کر آنکھیں کھول دیں،حضرت قطب الدین نے فرمایا،’’ فرید! اپنی خوش بختی پر ناز کرو۔ تم سے ملنے کے لیے میرے پیر و مرشد حضرت سلطان الہندؒ تشریف لائے ہیں۔‘‘ بابا فرید کی حالت غیر ہوگئی۔احتراماًکھڑے ہونے کی کوشش کی مگر لڑکھڑا کر گرپڑے اور اٹھنے کی سکت نہ پائی تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔حضرت سلطان الہند اور حضرت قطب نے بابا فرید کے لیے دعاکی اور اس کے بعد سلطان الہند نے بابافرید کو سینے سے لگالیا، آپؒ کو محسوس ہوا کہ آپ کا جسم آگ کے شعلوں میں گھراٹھا ہو۔ پھریہی تپش آہستہ آہستہ گل و شبنم میں تبدیل ہوگئی۔ بابا فرید نے محسوس کیا کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے سے کئی حجابات اُٹھ گئے ہیں۔طویل سیاحت اورسخت ریاضت کے بعد جو دولت عرفان حاصل نہ ہوسکی تھی،وہ سلطان الہند کی ایک نظرکرم نے بابا فریدؒ کے دامن میں ڈال دی۔ ایک روایت کے مطابق اسی سال حضرت بابا فرید ؒ کو خاندان چشتیہ کی خلافت بھی بخشی گئی، اس وقت بابا فریدؒ کی عمر تیس سال تھی۔ ہندوستان کے سب سے بڑے جوگی کا سامنا ہِندوستان میںآپ ؒ کے عَارفانہ کمالات سے مُتاثر ہوکر بے شُمار ہِندو حلقہ ٔ اسلام میں داخل ہورہے تھے، اِس پر برہمنوں کو بڑی تشویش تھی۔ اُنہوں نے مل کر ایک ایسے جوگی کا اِنتخاب کیا جو اَپنے فَن میں دَرجۂ کمال رکھتاتھا۔ہِندو دھرم کی بَرتری جتانے کے لیے ہِندوستان کا سَب سے بڑاجوگی بابافریدؒ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اَپنی مَذہبی رَسم کے مطابق ڈنڈوت کیا(دونوں ہاتھ جوڑ دیے) پھر زمین پر سَر رَکھ دیا۔ حَاضرین اِنتظار میں تھے کہ جوگی سَراٹھائے، مگر یہ گھڑیاں طویل ہوگئیں۔آخر حضرت بابا فرید نے مُسکراتے ہوئے فرمایا،’’مہمان سراٹھائو۔‘‘لیکن جوگی بدَستور سجدے میں پڑارہااور اپنے جسم کو ہلکی سی جُنبش بھی نہ دے سکا۔آخر بابافرید نے اَپنی نَشست سے اُٹھے اور دَست مُبارک کاسہارادے کر جوگی کو کھڑاکیا اور اِس شُعبدے باز سے فرمایا،’’ جو نیت لے کریہاں آئے تھے، اُس پر بے خوف وخطر عمل کرو۔‘‘ جوگی لرزتے جِسم اور گِڑگڑاتی آواز میں بولا،’’ جو اپنا سَر نہ اُٹھاسکتاہو ،وہ اَپنے اِرادے پرکیاعمل کرے گا؟‘‘ پھر وہ دوبارہ زمین پر سررکھ کر رونے لگا،’’بابا!میراتو سرمایہ لُٹ گیا اب تو میں ایک بھکاری کی مانند ہوں۔‘‘حضرت بابا فرید نے اسے کلمۂ طیبہ کی تلقین کی ،جس پر اس نے اسلام قبول کرلیا۔ جوگی یہ کہہ کر چلاگیا،’’بابا! میں بہت جلد واپس آئوں گا، میرے ذمے کِسی کا قرض باقی ہے۔ یہ بوجھ اُتار دوں۔‘‘ جب وہ چلاگیاتو بابافرید نے حاضرین سے فرمایا،’’جب اُس نے زمین پر سَر رکھا ،میں نے حق تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ سَر ہمیشہ تیری بارگاہ میں جھکارہے۔ اللہ نے اِس عَاجز کی دُعاقبول کرلی۔‘‘ جوگی برہمنوں کے پاس پہنچا توانہوں نے پوچھا،’’ کیا تُو بھی اُس فقیر سے مَات کھاگیا؟‘‘ جوگی نے جواب دیا،’’ میرااور بابا کا مقابلہ ہی کیا؟ بس ایک نادان دِیا(چراغ) تھا جو سورج کے مقابل چلاگیا اور اپنی رَوشنی کھو بیٹھا۔ تم ساری دنیا کے خزانے بھی میرے قدموں میں ڈھیر کردو تو میں بابا کی غلامی نہیں چھوڑوں گا،اُن کے صدقے مُجھے کائنات کی سَب سے بڑی دولت حاصل ہوئی ہے۔‘‘برہمنوں نے کہا،’’کون سی دولت؟‘‘ جوگی نے سرشاری سے کہا ،’’ وہ ایک سجدہ جو میں نے اللہ کی ذات کو کیا۔‘‘یہ کہہ کر وہ جوگی بابا فرید کے آستانے عالیہ کی جانب چلاگیا۔
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ جنہیں عقیدت سے بابا صاحب کہاجاتاہے۔ آپ ملتان کے ایک گائوں کوٹھی وال میں پیدا ہوئےاعلٰی پائے کے بزرگ اور منفرد حیثیت کے مالک تھے،آپ ایک بہت بڑے صوفی بزرگ کے خلیفہ اور ایک بہت بڑے صوفی بزرگ کے مرشدِ کامل تھے۔آپ کوخلافت حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ سے ملی۔ آپؒ کے مرتبے اور عظمت کا اندازہ اس بات سے ہوجاتا ہے کہ آپ خواجہ معین الدین چشتیؒ جیسے ولیٔ کامل اور حضرت قطب الدین بختیار راوشیؒ جیسے عظیم مرشد جو خواجہ صاحب کے خلیفہ کے نائب اور جانشین تھے۔ بابا صاحب مادر زاد ولی تھے آپ کی والدہ ماجدقرسم بی بیؒ خود ایک ولیۂ کاملہ اور مُلتان کے ایک ولّی کَامِل سید وہاج الدین خجندیؒکی صاحِب زَادی تھیں اور آپ کی نگرانی میں بابا صاحب کی تعلیم وتربیت ہوئی۔ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ حضرت عمر فاروق ؓ کی اولاد میںسے تھے، آپ کا سلسلہ تینتیس ویں واسطے میںحضرت فاروق اعظم ؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے اجداد میں سے پہلی ہجرت حضرت واعظ اصغر فاروقیؓ نے معہ متعلقین کے مدینۂ منورہ سے روم کی طرف کی اوراٹلی میں سکونت اختیار کی۔دوسری ہجرت حضرت واعظ فاروقیؒ کی اولاد سے شیخ احمد فاروقیؒ نے بھاری جمعیت کے ساتھ کی اور حملہ کر کے افغانستان فتح کرلیا اور فرخ شاہ کا لقب اختیار کیا۔جب افغانستان پر تاتاریوں نے حملہ کیا تو فَرخ شاہ کابلی کی اولاد سے شیخ شعیب نے ہجرت کی اور معہ متعلقین کے ملتان آکر قصور کے قریب کھتوال میں آباد ہوئے۔بابا صاحب انہی شیخ شعیب کے حقیقی پوتے اور شیخ جمال الدین سلیمان کے صاحب زادے تھے۔ جب آپ نے ابتدائی تعلیم وتربیت مکمل کرلی تو آپ مزید تعلیم کے لیے ملتان تشریف لے گئے۔یہاںآپ مولانا منہاج الدین برنا ترمذی کے مدرسے میں داخل ہوگئے جو مسجد میں واقع تھا۔ یہیں آپ کی ملاقات اَپنے مُرشدِ کامل حَضرت قُطب الدین بَختیار کاکی ؒ سے ہوئی۔اس ملاقات کی تفصیل سیر الاقطاب کے مصنف الہدایہ ابن شیخ عبدالرحیم نے ان الفاظ میں لکھی ہے، ’’ حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ نے ازراہِ شفقت اُن سے پوچھا کہ لڑکے کیا پڑھتے ہو؟‘‘ جواب دیا’’فقہ کی ایک کتاب جس کا نام’’نافع‘‘ ہے، پڑھتا ہوں۔‘‘حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ نے فرمایا،’’ انشاء اللہ تمہیں نَافع سے نَفع ہوگا ۔‘‘ ان الفاظ کااثر یہ ہوا کہ شیخ فرید الدین مسعود ؒ نے اپنے آپ کو قطب صاحب کے حوالے کردیا۔حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے حصولِ علم و تَربیتِ نفس اور تَکالیف ِفی سَبیل اللہ برداشت کرنے کے لیے طویل سفر اختیار کیا۔سفر کا یہ دورملتان میں اپنے مرشد کامل سے ملنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور دہلی جا کر اُن سے دوبارہ ملنے تک جاری رہتا ہے۔آپ نے وسط ایشیا ٔمشرق قریب اور مشرقِ وسطیٰ کے علاقوں میں سفر کے علاوہ قندھار اور دہلی کا بھی سفر اختیارکیا۔ اجودھن آج سے سینکڑوں سال پہلے دریائے ستلج کے کنارے ایک گُمنام اور چُھوٹی سِی جگہ تھی۔ آج وُہی گُم نَام جگہ خَلقِ خدا کے لیے رُوحانی فیض و سُکون کا مرکز بنی ہوئی ہے۔اجودھن کا نام شہنشاہ اکبر نے تبدیل کرکے پاک پتن رکھاتھا۔اکبربادشاہ بابا صاحب کی روحانی عظمت سمجھتاتھا اور بابا صاحب کا دل سے عقیدت مند تھا۔ہندوستان کی اسلامی تاریخ اور روحانی تعمیر میں چشتیہ سلسلہ کے بزرگوں نے بے مثال کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ہندوستان میںاسلام پھیلانے اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات عام کرنے میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ‘ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ‘ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ اور حضرت نظام الدین اولیا ؒ کی مساعی کا بڑا دخل ہے۔ بابا صاحب نے اسلامی تعلیمات کے ذریعے بر صغیر کی مختلف قوموں کو بھائی چارے کاپیغام دیا۔آپ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے اور رسول اللہ ؐ کی سُنّتوں کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔شریعت کے سختی سے پابند تھے اور دوسروں کو بھی پابندیٔ شریعت کا حکم فرماتے تھے۔آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ،’’ اگر کوئی شَریعَت کا پابند نہ ہواور وہ ہوا میں اُڑتا ہو یا پانی پر چلتا ہو، وہ صُوفی نہیں شیطان ہے۔آپ کا معمو ل تھا کہ جماعت خانے میں آنے والے ہر درویش اور طالب سے خود ملتے تھے ۔اُس کا حال دریافت کرتے اور اُس کی مدد کرتے تھے۔جماعت خانہ آپ نے درویشوں کے قیام کے لیے تعمیر کرایاتھا۔جہاں رہ کر روحانی تعلیم وتربیت حاصل کرتے تھے۔ آپ نے اپنے دورکے حکمرانوں کو انصاف اور انسان دوستی کا سبق دیا ،انہیں اسلامی طرز حکمرانی کے آداب سکھائے اور انہیں توحید ومساوات سے روشناس کرایا۔ ایک غور طلب بات یہ ہے کہ جو اِنقلاب مُسلمان حکمران بر صغیر میں نہیں لاسکے وہ انقلاب اولیائے کرام اپنے عمل‘دعوت ِ فکر اور روحانی تعلیمات کے ذریعے لائے اور خاص طور پر بابا صاحب نے یہ فریضہ منفرد انداز میں ادا کیا اور تاریخ بدل کر رکھ دی۔ وہ فریضہ ہندوستان کی ہندو آبادی کو اسلام سے قریب لانے اور انہیں اپنا بنانے کاتھا۔جب مرشدؒ نے انہیںاسلام کی تبلیغ کے لیے مامور کیا وہ خاندانِِ غلامان کا دورتھا۔ایک طرف تو ہندو اکثریت تھی جو مسلمانوں سے میل ملاپ بڑھاتے ہوئے ڈرتی تھی اس لیے کہ اُن میں ایک محکوم قوم کی نفسیات تھی،دوسری طرف تاتاریوں کے حملوں نے مسلمانون کی عظمت اور قوت پارہ پارہ کردی تھی اور خوف تھا کہ ہندو اکثریت کہیں اَپنے مُٹھی بھر مسلمان حکمرانوں کے خلاف بدگمان ہو کر سازش شروع نہ کردے۔ اس نازک دورکا چیلنج حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے قبول کیا۔مسلمانوں کو حق پرستی کی قوت کااحساس دلایا،اُن کی خود اعتمادی بیدار کی اور مختلف قوموں میں یک جہتی کے لیے جدوجہد شروع کی،آپ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ہِندواسلام کے قریب آنا شروع ہوئے، ہزاروں،لاکھوں مشرف بہ اسلام ہوئے اور جو مسلمان نہ ہوئے انہوں نے اسلام سے متاثر ہو کر بھگتی تحریک میں اپنے آپ کو ضم کرلیا ۔یہی بھگتی تحریک والے سکھ کہلائے۔گرورار جن مل آپ کے اندازِ فکر سے بہت متاثر تھے۔گرنتھ صاحب میں اکثر اشلوک ایسے ہیں جنہیں بابا فریدؒ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ بابا صاحب نو مُسلموں سے عوامی بولی میں بات چیت کرتے تھے ۔شاید یہیں سے اردو زبان کی ابتدا ہوئی اورامیر خسروؒ نے اس میٹھی زبان میں رنگ و موسیقی کی آمیزش کی۔حضرت بابا صاحب اپنے عقیدت مندوں اور طالب علموں سے نہایت شفقت اور پیار سے بات کرتے تھے۔ آپ کبھی بحث مباحثوں میں نہ الجھتے ۔آپ کے مزاج میں بڑا سُکون، تَحمل اوردِھیما پَن تھا جو ہر شخص کا دل موہ لیتاتھا۔ آپ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی مروّت اور درگذرسے پیش آتے ۔ایک باربابا صاحب سخت بیمارہوگئے ۔ آپ نے اپنے مرید حضرت نظام الدین اولیا ؒ اور فرزند بدر الدین سلیمانؒ کو مشغول حق کے واسطے حکم دیا۔یہ لوگ حکم کے مطابق عبادت الہٰی میں مشغول ہوگئے،اس رات شیخ بدر الدین سلیمانؒ نے خواب میں دیکھا کہ بابا صاحب پر شہاب الدین جادوگر کے بیٹے نے جادوکیا ہے ،چناں چہ اس کا مداوا کیاگیا اورآپ بفضلِ خُدا صحت یاب ہوگئے۔ اجودھن کے حاکم کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بہت برہم ہوا اور اس نے شہا ب الدین جادوگر کے بیٹے کو پابہ زنجیر کرکے حضرت شیخ الاسلام کے حضور بھیج دیاکہ ''یہ شخص وَاجِب القتل ہے اگر حکم ہو تو اس کی گردن اڑادوں"'آپ نے جواب دیا کہ،’’ شافی حقیقی نے مجھے صحت بخش دی،میں اِس کے شکرانے میں اُس کی خطا معاف کرتا ہوں، آپ بھی درگذر کریں۔‘‘ بابا صاحب کو گنج شکرؒ کیوں کہتے ہیں اس سلسلے میںکئی روایات ہیں لیکن حاجی محمد قندھاری کی تاریخ میں لکھا ہے کہ جِن دنوں بابا صاحب دہلی میں قطب صاحب کی خدمت میں رہتے تھے ،ایک روز برسات میںکھڑاوں پہن کر پیرکی خدمت میں جارہے تھے کہ پھسل کر گر پڑے اور مٹی کے کچھ ذرّات آپ کے دہنِ مبارک میں چلے گئے اور حکمِ خُدا سے شکر میں تبدیل ہوگئے۔جب آپ حضرت قطبؒ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ’’ تھوڑی مٹی تمہارے منہ میں پہنچ کر شکر ہوگئی۔کیا عجب کہ قادر ِ مطلق نے تمہارا تمام جسم گنجِ شکر کیا ہے ، وہ تمہیں اپنے فضل سے شیریں رکھے گا۔‘‘اُس وقت سے آپ خلق میں گنجِ شکر ؒ مشہور ہوگئے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے فرمایا،’’پانچ محرم کو مرشد بابافرید الدین کے مرض کی شدت بڑھ گئی اور حضرت شیخ نے عشا ٔ کی نماز باجماعت اداکی اور بے ہوش ہوگئے،اس طرح تین بار نماز عشا ٔ ادا کی اور 5محرم الحرام679 ہجری بہ مطابق 1246 عیسوی کو سجدے کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے۔ اس وقت آپؒ کی عمر پچانوے سال تھی۔بعض روایت کے مطابق آپؒ کا وصال 664ہجری میں ہوا آپؒ کا عرس مبارک ہر سال 5تا 7 محرم الحرام تک پاک پتن شریف میں منایا جاتا ہے۔ (اقتباس از فکرفریدؒ) سلطان الہند سے ملاقات کاعظیم الشان واقعہ آپؒ کی چلّہ کشی کے دوران صوفیائے ہند کی تاریخ کا وہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا جو وقت کی پیشانی پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوکر رہ گیاہے۔ 612 ھ میں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی دہلی تشریف لائے ،والیٔ ہندوستان شمس الدین التمش سمیت پورا شہر زیارت و قدم بوسی کے لیے امڈ آیا،جب سب لوگ واپس چلے گئے تو حضرت سلطان الہندؒ نے حضرت قطب الدین بختیار کاکی سے دریافت کیا کہ،’’قطب! تم نے اپنے نئے مرید فرید الدین مسعودؒ سے متعلق اطلاع دی تھی ،کیا وہ حاضر ہواتھا؟اُنہوں نے عرض کی کہ ،’’وہ چلّہ کشی میں مصروف ہے۔‘‘ سلطان الہند نے فرمایا،’’ اگر وہ یہاں آنے سے قاصر ہے تو ہم اس حجرے تک جانے سے قاصر نہیں۔‘‘حضرت قطب نے بے اختیار عرض کی،’’ فرید بھی کیا خوش نصیب ہے کہ اولیائے ہند کا شہنشاہ خود ایک غلام کی خاطر تشریف لیے جارہاہے۔‘‘ آپ ؒ نے فرمایا،’’نہیں ،فرید اس کا مستحق ہے۔‘‘ برج میں چلّہ کشی میں مصروف بابا فرید نے اچانک محسوس کیا کہ ایک مسحور کن خوشبو حجرے میں پھیل گئی ہے ۔گھبرا کر آنکھیں کھول دیں،حضرت قطب الدین نے فرمایا،’’ فرید! اپنی خوش بختی پر ناز کرو۔ تم سے ملنے کے لیے میرے پیر و مرشد حضرت سلطان الہندؒ تشریف لائے ہیں۔‘‘ بابا فرید کی حالت غیر ہوگئی۔احتراماًکھڑے ہونے کی کوشش کی مگر لڑکھڑا کر گرپڑے اور اٹھنے کی سکت نہ پائی تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔حضرت سلطان الہند اور حضرت قطب نے بابا فرید کے لیے دعاکی اور اس کے بعد سلطان الہند نے بابافرید کو سینے سے لگالیا، آپؒ کو محسوس ہوا کہ آپ کا جسم آگ کے شعلوں میں گھراٹھا ہو۔ پھریہی تپش آہستہ آہستہ گل و شبنم میں تبدیل ہوگئی۔ بابا فرید نے محسوس کیا کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے سے کئی حجابات اُٹھ گئے ہیں۔طویل سیاحت اورسخت ریاضت کے بعد جو دولت عرفان حاصل نہ ہوسکی تھی،وہ سلطان الہند کی ایک نظرکرم نے بابا فریدؒ کے دامن میں ڈال دی۔ ایک روایت کے مطابق اسی سال حضرت بابا فرید ؒ کو خاندان چشتیہ کی خلافت بھی بخشی گئی، اس وقت بابا فریدؒ کی عمر تیس سال تھی۔ ہندوستان کے سب سے بڑے جوگی کا سامنا ہِندوستان میںآپ ؒ کے عَارفانہ کمالات سے مُتاثر ہوکر بے شُمار ہِندو حلقہ ٔ اسلام میں داخل ہورہے تھے، اِس پر برہمنوں کو بڑی تشویش تھی۔ اُنہوں نے مل کر ایک ایسے جوگی کا اِنتخاب کیا جو اَپنے فَن میں دَرجۂ کمال رکھتاتھا۔ہِندو دھرم کی بَرتری جتانے کے لیے ہِندوستان کا سَب سے بڑاجوگی بابافریدؒ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اَپنی مَذہبی رَسم کے مطابق ڈنڈوت کیا(دونوں ہاتھ جوڑ دیے) پھر زمین پر سَر رَکھ دیا۔ حَاضرین اِنتظار میں تھے کہ جوگی سَراٹھائے، مگر یہ گھڑیاں طویل ہوگئیں۔آخر حضرت بابا فرید نے مُسکراتے ہوئے فرمایا،’’مہمان سراٹھائو۔‘‘لیکن جوگی بدَستور سجدے میں پڑارہااور اپنے جسم کو ہلکی سی جُنبش بھی نہ دے سکا۔آخر بابافرید نے اَپنی نَشست سے اُٹھے اور دَست مُبارک کاسہارادے کر جوگی کو کھڑاکیا اور اِس شُعبدے باز سے فرمایا،’’ جو نیت لے کریہاں آئے تھے، اُس پر بے خوف وخطر عمل کرو۔‘‘ جوگی لرزتے جِسم اور گِڑگڑاتی آواز میں بولا،’’ جو اپنا سَر نہ اُٹھاسکتاہو ،وہ اَپنے اِرادے پرکیاعمل کرے گا؟‘‘ پھر وہ دوبارہ زمین پر سررکھ کر رونے لگا،’’بابا!میراتو سرمایہ لُٹ گیا اب تو میں ایک بھکاری کی مانند ہوں۔‘‘حضرت بابا فرید نے اسے کلمۂ طیبہ کی تلقین کی ،جس پر اس نے اسلام قبول کرلیا۔ جوگی یہ کہہ کر چلاگیا،’’بابا! میں بہت جلد واپس آئوں گا، میرے ذمے کِسی کا قرض باقی ہے۔ یہ بوجھ اُتار دوں۔‘‘ جب وہ چلاگیاتو بابافرید نے حاضرین سے فرمایا،’’جب اُس نے زمین پر سَر رکھا ،میں نے حق تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ سَر ہمیشہ تیری بارگاہ میں جھکارہے۔ اللہ نے اِس عَاجز کی دُعاقبول کرلی۔‘‘ جوگی برہمنوں کے پاس پہنچا توانہوں نے پوچھا،’’ کیا تُو بھی اُس فقیر سے مَات کھاگیا؟‘‘ جوگی نے جواب دیا،’’ میرااور بابا کا مقابلہ ہی کیا؟ بس ایک نادان دِیا(چراغ) تھا جو سورج کے مقابل چلاگیا اور اپنی رَوشنی کھو بیٹھا۔ تم ساری دنیا کے خزانے بھی میرے قدموں میں ڈھیر کردو تو میں بابا کی غلامی نہیں چھوڑوں گا،اُن کے صدقے مُجھے کائنات کی سَب سے بڑی دولت حاصل ہوئی ہے۔‘‘برہمنوں نے کہا،’’کون سی دولت؟‘‘ جوگی نے سرشاری سے کہا ،’’ وہ ایک سجدہ جو میں نے اللہ کی ذات کو کیا۔‘‘یہ کہہ کر وہ جوگی بابا فرید کے آستانے عالیہ کی جانب چلاگیا۔
0 Comments
please do not enter any spam link in the comment box.
Emoji