مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی علیہ رحمة یوم شہادت 22 رمضان المبارک


پہلا منظر
 ایک نظر بھاگتے انگریز کو دیکھا اور پھر سجدے میں گر گئے مرادآباد خالی ہو چکا تھا۔
انگریز سامراج شکست کھا چکا تھا۔
سارا شہر سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه  کے گرد جمع ہوا، نواب نے آگے بڑھ کر سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه کا شکریہ ادا کیا اور صدرالشریعہ  کے عہدے سے نوازا۔

دوسرا منظر
1857 کی تحریک کچلی جا چکی تھی انگریز دوبارہ حاکم بن چکا تھا مرآدباد پر پھر سے انگریز قابض ہو چکا تھا سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه گرفتاری سے قبل انگریز کے خلاف جہاد کا فتوی صادر کر چکے  تھے  جسے بدایوں،بریلی،اترکھنڈ میں ہر جگہ مسلمانوں کو پڑھ کر سنایا گیا تھا
تيسرا منظر
جب سورج پہاڑ کی اوٹ میں روپوش ہو رہا تھا عین اسی وقت انگریز افسر سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه  کے پاس آیا اور بولا
"آپ اب بوڑھے ہو گئے ہو آپ کا بڑھاپا دیکھ کر میں آپ پر ترس کھانے کو تیار ہوں موت سے بچنا چاہتے ہو تو اپنا جہاد کا فتوی واپس لے لو آپ کو رہا کر دیا جائے گا"
سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه نے حقارت سے انگریز کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا میں اپنے لہو سے تمہاری تباہی کی تحریر لکھ چکا ہوں اب برصغیر میں ایک آگ سلگ چکی ہے جو تمہارے محلوں کو جلا کر رکھ دے گی.
انگریز افسر غصے میں پلٹا اور چند دن بعد سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه کے سامنے ان کی موت کا پروانہ پڑھا جا رہا تھا سید کفایت علی کافی  رحمة الله عليه کے چہرے پر ایک مسکراہٹ کھیل رہی تھی
انگریز غص
انگریز کو تسے میں آیا اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ مل کر  سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه پر لاٹھیوں کی برسات کر دی بوڑھے سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه زخموں سے چور ہو کر فرش پر گرےلی نہ ہوئی اس نے استریاں منگوانے کا حکم دیا سید کفایت علی کافیؒ کے جسم پر استریاں پھیری جا رہیں  تھیں اور سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه  کا سارا جسم داغا جا رہا تھا جب سید کفایت علی کافی  رحمة الله عليه کے چہرے سے کوئی حرفِ  شکایت نہ آیا تو انگریز نے ان زخموں میں نمک مرچ بھر دیا انگریز افسر چلا کر بولا یہ صبح پھانسی سے قبل ہی فوت ہوجائیں گے اور چل دیا
چوتھا منظر
سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه  کا بوڑھا جسم درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا کہ عین اسی وقت رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا،
کافی کیا پریشان تو نہیں؟
سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه نے نم آنکھوں سے عرض کی
"یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے پریشان تھا مگر اب نہیں ہوں".
پانچواں منظر
صبح ایک سپاہی انگریز افسر کے پاس خبر لے کر آیا کہ سید کفایت علی کافی رحمة الله تعالى عليه
ابھی تک زندہ ہیں انگریز نے اسٹریچر لانے کا حکم دیا اور کہا کہ اس پر ڈال کر انہیں  پھانسی گھاٹ کی طرف لے چلو
جب سپاہی جیل کی طرف گیا تو اس نے ایک دلخراش چیخ ماری، سب جمع ہو چکے تھے سب کی آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں
سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه نمک مرچ بھرے ہوئے جسم پر عمامہ شریف پہن رہے تھے سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه فخریہ انداز سے سینہ تان کر مقتل کی طرف بڑھے -
سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه جانتے تھے  کہ اللہ پاک کو یہ چال ناپسند ہے ہاں لیکن اس کے دشمنوں کے مقابلے میں الله کو یہ چال پسند ہے، انگریز افسر نے کپکپی لی اور کانپتے ہوئے کہا
آپ اب تک کھڑے کیسے ہیں-
سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه مسکرا رہے تھے آپ کی مسکراہٹ آپ کی ہمت،استقلال،صبر اور غضب کی عکاسی کرتی تھی-
چھٹا منظر
سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه نے ایک نظر پھانسی گھاٹ کی طرف دیکھا اور پھر برجستہ اشعار پڑھنا شروع کردئیے:-

کوئی گل باقی رہے گا، نے چمن رہ جائےگا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم صفیرو باغ میں ہے کوئی دم کاچہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائےگا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائےگا
سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ، ولیکن حشرتک
نعت حضرت کا زبانوں پرسخن رہ جائےگا


جب سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه آخری شعر پڑھ رہے  تھے  تو اس وقت آپ کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا تھا-
قافلہ حریت کا پاسباں اپنی جان جان  آفریں کے سپرد کر چکے  تھے-

سورج نیلے افق پر اپنی شعائیں بکھیر رہا تھا اور عالم اسلام کا ایک عظیم سورج عین اسی وقت غروب ہو رہا تھا۔

شہید تحریک آزادی سید کفایت علی کافی رحمة الله عليه کی عظمت پہ لاکھوں سلام